Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

 *عوام کی دین سے دوری اور تبلیغ دین کا فقدان:ذمہ دار کون؟* _ 


      اسلام وہ آفاقی مذہب ہے جس میں حیات انسانی کی ساری کامیابی کے راز پنہاں ہے یہی وہ دین ہے جو اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے پسندیدہ اور محبوب ہے " اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫" یعنی بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔(پارہ۳،سورہ آل عمران آیت۱۹) 


طریق حق اور صراط مستقیم جس کا نام ہے وہی دینِ اسلام اور دین محمدی سے مشہور و معروف ہے اس کے ماننے والے کو مسلمان اور مومن کہا جاتا ہے۔ انسان کے اندر کامل انسانیت تب تک نہیں آسکتی جب تک کہ اسلامی قوانین و احکام کو حرز جاں نہ بنا لیا جاۓ کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جو اپنے اندر مکمل ضابطہ حیات بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی انسان کے مہد سے لحد تک سارے دینی و دنیوی معاملات کی واضح رہنمائی اسی پاکیزہ مذہب میں ملتی ہے۔ یہی وہ مذہب ہے جس میں مکمل طور پر داخل ہونے کی ترغیب خود خلاق کائنات نے ہی دی ہے

" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ"

 یعنی اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (پارہ۲،سورہ بقرہ،آیت۲۰۸)۔ 


از آدم تا ایں دم دیکھا گیا ہے کہ وہی شخص صحیح معنوں میں کامیابی کی دہلیز تک پہنچ سکا ہے جس نے دین اسلام کے احکام و فرامین کی پیروی کی اور مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو آئیڈیل بنا کر ان کے اسوۂ حسنہ کو اپنایا ہے، جس شخص نے بھی اسلامی تعلیمات و احکام سے اعراض کیا اس کے خائب وخاسر ہونے پر تاریخی شہادتیں جا بجا ملتی ہیں۔ مگر افسوس کی انتہا نہیں رہ جاتی ہے کہ آج کے اس پرفتن دور میں جبکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کفار کی طرف سے ناپاک عزائم اور مکر و فریب کے جال بچھاۓ جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں خود اہلیان اسلام کا تعلق دین اسلام اور بانی اسلام سے‌ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے، پورے مسلم معاشروں میں عجب بے حسی کی کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ چشم عبرت سے مشاہدہ کرنے کے لائق ہے کہ اغیار مسلمانوں اور ان کے تشخصات و امارات کو مٹانے کے بالکل درپے ہیں۔ مختلف حربے اور ہتھکنڈے اپنا کر انہیں ان کے دین سے دور کردینا چاہتے ہیں۔ جس کی انجام دہی کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں لیکن ہائے رے میری قوم کی بے حسی، معلوم نہیں کس غفلت بھری نیند میں مست ہے۔

  ع~

 سونا جنگل رات اندھیرہ چھائی بدلی کالی ہے

 سونے والو! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے

  آنکھ سے کاجل صَاف چُرا لیں یاں وہ چور بلا کے ہیں

تیری گٹھری تاکی ہے اور تُو نے نیند نکالی ہے


     عصر حاضر میں قوم مسلم کا جائزہ لیا جاۓ تو یہ حقیقت بالکل آشکار ہو جاتی ہے ہماری اکثریت اپنے ہی دین سے دوری کا شکار ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہماری عوام اپنے دین کی بالکل بنیادی باتوں سے بھی کوری اور نابلد ہے۔ دین کی نہایت بنیادی باتیں اور احکام انہیں معلوم نہیں جس کے صلے میں خالص وہ نام کے مسلمان بن کر رہ جاتے ہیں، اسلامی تعلیمات کی کوئی رمق ان کی زندگی میں نہیں پائی جاتی۔ وجہ یہی ہے کہ یا تو انہیں مذہب سے واقعی دلچسپی نہیں بایں سبب مذہب کی تعلیمات کی اہمیت ان کی نظر میں نہیں ہے یا ان کے سامنے صحیح طور پر اسلامی عقائد و ایمانیات کو پیش نہیں کیا گیا۔ من جملہ دیکھا جاۓ تو امت مسلمہ کی زبوں حالی کا مدار ہی چراغ مصطفوی سے روشنی لینے کے بجائے شرار بولہبی سے متاثر ہونے پر ہے

ع~

  طریق مصطفی کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی 

 اسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی 



ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب کا کچھ اجمال اور کچھ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جاۓ جس کے نتیجے میں مسلم امہ اپنے دین سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اور اس کے چارہ جوئی کے لیے حرکت و عمل کا عنصر بالکل ماند پڑتا جارہا ہے۔


   *١- تبلیغ دین کا‌‌ فقدان* 

دین سے دوری اور لا تعلقی کی سب سے اہم وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے میں دعوت و تبلیغ کا رجحان بالکل انحطاط پذیر ہے۔ دعوت و تبلیغ ہمارا اجتماعی فریضہ ہے اور یہی ہمارا نشان امتیاز ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں :" كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ" یعنی (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو(پارہ ٤،سورہ آل عمران۱۱۰)۔


 رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری طرف سے پہنچادو اگر چہ ایک ہی آیت ہو۔(بخاری شریف) نیز سرکار(علیہ الصلاة والسلام) فرماتے ہیں :"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ " یعنی تم جو کوئی برائی دیکھے تو اس کو لازم ہے کہ ہاتھ سے روکے، اگر اس (ہاتھ سے روکنے) کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے پس اگر اس کی(بھی)استطاعت نہ ہو کم از کم دل سے اس کو براجانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور حصہ ہے۔(مسلم شریف، باب النھی عن المنکر) 


یہاں ٹھہر کر یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے اگر اتفاق سے چند پرجوش مبلغین ہیں بھی تو غیر تربیت یافتہ ہیں جو دعوت و تبلیغ کے عناصر و اجزاء اور اس کے اصول و قوانین سے بہرہ ہوتے ہیں۔ ان مبلغین کی صحیح تربیت ہمارے اکابر علماء و مشائخ کی ذمہ داری ہے۔ چوں کہ ”ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن “ کا یہی تقاضا ہے کہ مبلغین کے اندر حکمت بالغہ، موعظت حسنہ اور جدال احسن کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہو۔

 ”الدین نصیحۃ“ دین سراپا بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ چنانچہ لوگوں کی اس بھلائی والے دین کی طرف بلانے کے لیے تربیت یافتہ دعاۃ و مبلغین کی اشد ضرورت ہے۔ 


   

 *٢- علم کی کمی :* 

دین سے دوری کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ حالاں کہ اسلام میں تعلیم و تعلم کی اہمیت اس قدر‌ مسلم ہے کہ مصطفیٰ کریم ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کا آغاز "اقرأ" یعنی پڑھو سے سے ہوا نیز قران مجید میں دوسرے مقام پر ہے :"یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ" یعنی اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا(پارہ ۲۸،سورہ مجادلہ،آیت۱۱)۔حدیث شریف میں ہے :"طلب العلم فريضة على كل مسلم" یعنی علم کو طلب کرنا ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے۔


ہماری بلندی اور برتری اکا سارا اساس علم پر رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود دنیا میں ہم ایک ان پڑھ قوم کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے علم میں غیر معمولی ترقی کرکے پوری دنیا کو چونکاۓ ہیں مگر افسوس ہم اپنے اسلاف کے صحیح اخلاف نہ ہوۓ۔ اور حشر یہ ہوا کہ علم سے دور ہونے کی وجہ سے دین سے بھی تعلق کمزور ہوتا چلا گیا اور دنیا کے سامنے مذہب کی غلط شبیہ پیش ہوگئ۔


 *٣- دنیاوی مشغولیات:* 

 اس فانی دنیا کے چکر میں انسان اخروی دائمی حیات کو پس پشت ڈال دیتا اور دنیا کمانے میں ساراوقت گنوا دیتا ہے جبکہ یہ محض نادانی اور ایک مسلمان کے لیے افسوس کا مقام ہے ارشاد حق تعالی ہے:"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ" یعنی اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔(پارہ ۲۸،سورہ منفقون ، آیت۹) نیز باری تعالیٰ فرماتا ہے :" اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ(۱)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَﭤ(۲)" یعنی زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔(عم پارہ) 


 *٤- سماجی اور ثقافتی عوامل :* 

اس کے تحت بہت ساری چیزیں آسکتی ہیں، بطور مثال تین چیزوں کا تجزیہ پیش کرتے ہیں:

 ( *اول* )مغربی اثرات: مغربی اثرات اور فیشن نیز میڈیا کی فحاشی پر مبنی مواد کی بہتات نے لوگوں کو دین سے دور کرنے میں خطرناک کردار ادا کیے ہیں۔

 ع~شہد دکھائے زہر پلائے، قاتل، ڈائن، شوہر کش

اس مردار پہ کیا للچایا دُنیا دیکھی بھالی ہے


 ( *دوم* ) سماجی، اقتصادی دباؤ : معاشرتی اور اقتصادی الجھنوں نے بھی لوگوں کو دین سے دور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ معاشرتی دباؤ، اقتصادی الجھن اور احساس کمتری ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو مدرسے میں اس لیے نہیں پڑھانا چاہتے ہیں کہ کہ فقط دین کی باتیں سیکھ کر زندگی کیسے گزار لے گا، نہ اس لائن میں پیسے ہیں نہ معاش کے قابل قدر ذرائع ہیں۔ لہذا ایسی ذہنیت سے متاثر افراد کی ذہن سازی بہت ضروری ہے۔


 ( *سوم* ) گھریلو ماحول : یہ بہت اہم وجہ ہے کہ اگر گھر اور خاندان میں دینی تعلیم و تربیت کو اہمیت اور ترجیح نہ دی جائے تو یقینا لوگ دین سے ناواقف ہی ہوں گے اور عصر حاضر کا حال بھی یہی ہے کہ لوگ دنیاوی تعلیم کو ماویٰ اور ملجا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جبکہ اسلام کسی بھی تعلیم خواہ دینی ہو یا دنیاوی کسی کے حصول سے بھی نہیں روکتا ہاں اتناضرور فرماتا ہے کہ مسلمان کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ پہلے اپنی آنکھوں میں سرمہ خاک مدینہ بصورت علم نبوی لگالے پھر دنیاوی تعلیم کو حاصل بھی کرےگا تو وہ اس کے مفاسد سے متاثر نہ ہوگا۔ اندازہ لگائیں کہ ماحول کی ناسازگاری کی وجہ سے کس قدر الحاد و ارتداد کی تیز آندھیاں چل پڑی ہیں۔ جب گھر میں بے حیائی ہوگی، عیاشی ہوگی، ناچ گانا ہوگا بھلا ان تاریکیوں میں اولاد بہکی گی نہیں تو کیا ہوگی۔ چنانچہ اولاد کی صحیح تربیت اور گھر کے ماحول کو خالص اسلامی بنانا نہایت ضروری ہے۔ اس سے معاشرہ، گھر، افراد سب پرسکون زندگی گزار سکیں گے۔


            *ذمہ دار کون ؟* 

       ان مفاسد کا ذمہ دار اولا ہر شخص ہے ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ مذہبی اور معاشرتی نقطہ نظر سے ہر بڑا اور اثر و رسوخ والا اپنے ماتحت کا ذمہ دار ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں:"فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " یعنی "تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی رعیت (ذمہ داری) کے بارے میں پوچھا جائے گا"(بخاری شریف). لہذا سب کو چاہیے کہ پہلے اپنی ذات کی پھر اپنے ماتحتوں کی اصلاح کرے ان شاءاللہ معاشرہ اسلامی احکام اور سنت نبوی کا ادا شعار ہوگا۔

   

 عوام کی دین سے دودی اور تبلیغ دین کے فقدان کی وجوہات مزید ہیں اور ہو سکتے ہیں اس مضمون میں ہم نے حتی المقدور قرآن و احادیث کی روشنی میں بعض اہم وجوہات اور اس کے حل و تدارک کا اختصار کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔ امید ہے ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنایا گیا تو نمایاں تبدیلی محسوس کی جاۓ گی۔ ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے ساتھ یہ مضمون اپنے اختتامی کو پہنچتا ہے۔


    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں

    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

Post a Comment

0 Comments