(1)سمجھدار و پارسا عورت
(2)شہوت پرست بادشاہ اور لالچی عورت
(1)سمجھدار و پارسا عورت:
حضرت سیدنا حسن بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ بصرہ میں ایک مالۡدار شخص رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ اپنے باغ میں گیا تو دیکھا کہ اس کا نوکر اپنی حسین و جمیل بیوی کے ساتھ باغ میں موجود ہے۔ نوکر کی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر مالۡدار کی نیت خراب ہو گئی ۔ اس نے عورت کو محل میں بھیجا اور نوکر سے کہا: جاؤ ! ہمارے لئے کھجوریں توڑ لاؤ، جب کَھجوریں توڑ چُکو تو فُلاں فُلاں کو میرے پاس بُلا لانا ۔ نوکر حکم پاتے ہی کَھجوریں لینے چلا گیا۔ اب یہ اپنے محل میں آیا اور نوکر کی بیوی سے کہا: تمام دروازے بند کر دو ۔ عورت نے تمام دروازے بند کر دیئے تو مالۡدار نے کہا: ” کیا تمام دروازے بند کر دیئے ؟“سمجھ دار نیک عورت نے کہا: صرف ایک دروازہ مَیں بند نہ کر سکی۔ مالۡدار نے کہا: کون سا دروازہ تو نے بند نہیں کیا ؟ اس نے کہا: ” وہ دروازہ جو ہمارے اور ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ہے، مَیں اسے بند نہیں کر سکی ۔ یہ جملہ اس مالۡدار کے دل میں تاثیر کا تیر بَن کر پیوست ہو گیا ۔ وہ گناہ سے بچ گیا اور رو ، رو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
(عُیُونُ الحکایات(مترجم)
حصہ دوم صفحہ 58
مؤلف:امام عبد الرحمٰن بن علی الجوزی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ
اَلۡمُتَوَفّٰی 597)
(2)
حکایت نمبر 89
شہوت پرست بادشاہ اور لالچی عورت پر قہرِالٰہی:
حضرت سَیِِّدُنا میسرہ رحمة اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ”بنی اسرائیل میں ایک بہت عبادت گزار لَکَڑۡہَارا تھا ، اس کی بیوی بنی اسرائیل کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تھی، دونوں میاں بیوی ہَنۡسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ، جب اس مُلک کے بادشاہ کو لکڑہارے کی بیوی کے حسن و جمال کی خبر ملی تو اس کے دل میں شیطانی خیال آیا اور اس نے تہیّہ کر لیا کہ میں کسی طرح اس کے عورت کو ضرور حاصل کروں گا ، چنانچہ اس ظالم و شہوت پرست بادشاہ نے ایک بُڑھیا کو اس لکڑہارے کی بیوی کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے ورغلائے اور لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ لکڑہارے کو چھوڑ کر شاہی محل میں مَلکہ بن کر زندگی گزارے۔ چنانچہ وہ مَکّار بُڑھیا لکڑہارے کی بیوی کے پاس گئی اور اس سے کہا: تو کتنی عجیب عورت ہے کہ اتنے حسن و جمال کے باوجود ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جو نہایت ہی مفلس اور غریب ہے جو تجھے آسائش و آرام فراہم نہیں کر سکتا، اگر تو چاہے تو بادشاہ کی مَلکہ بن سکتی ہے۔ بادشاہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اگر تو لکڑہارے کو چھوڑ دے گی تو میں تجھے اس جھونپڑی سے نکال کر اپنے محل کی زینت بناؤں گا ، تجھے ہِیرے جَواہرات سے آراستہ و پیراستہ کر دوں گا ، تیرے لئے ریشم اور عمدہ کپڑوں کا لباس ہوگا ، ہر وقت تیری خدمت کے لئے کنیزیں اور خُدّام ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے اور تجھے اعلٰی درجے کے بستر اور تمام سہولتیں مل جائیں گی بَس تو اس غریب لکڑہارے کو چھوڑ کر میرے پاس چلی آ ۔ جب اس عورت نے یہ باتیں سنیں تو لالچ میں آگئی اور اس کی نظروں میں بلند و بالا مَحلّات اور اس کی آسائشیں گھومنے لگیں ۔ چنانچہ اس نے لکڑہارے سے بےرُخِی اختیار کر لی اور ہر وقت اس سے ناراض رہنے لگی ، جب اس نیک شخص نے محسوس کیا کہ یہ مجھ سے بےرُخِی اختیار کر رہی ہے تو اس نے پوچھا: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی ! تم نے یہ رَوَیّہ کیوں اختیار کر لیا ہے؟ یہ سن کر اس لالچی عورت نے مزید سخت روَیّہ اختیار کر لیا، بِالآخر لکڑہارے نے مجبوراً اس حسین و جمیل بےوفا لالچی عورت کو طلاق دے دی ، وہ خوشی خوشی بادشاہ کے پاس پہنچی۔بادشاہ اسے دیکھ کر پُھولا نہ سَمایا ، اس نے فوراً اس سے شادی کر لی، بڑی دھوم دھام سے جشن منایا گیا پھر جب بادشاہ اپنی نئی دُلہن کے پاس حجرہ عروسی میں پہنچا اور پردہ ہٹایا تو یکدم بادشاہ بھی اندھا ہو گیا اور وہ عورت بھی اندھی ہوگئی ، نہ تو وہ عورت اس بادشاہ کو دیکھ سکی نہ ہی بادشاہ اس لالچی و بےوفا عورت کے حسن و جمال کا جلوہ دیکھ سکا۔ پھر بادشاہ نے اپنی دلہن کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے چُھو سکے لیکن اس کا ہاتھ خشک ہو گیا پھر اس عورت نے بادشاہ کو چُھونا چاہا تو اس کے ہاتھ بھی خشک ہو گئے ، جب انہوں نے ایک دوسرے سے بات کرنا چاہی تو دونوں ہی بَہۡرے اور گُونگے ہو گئے اور ان کی شہوت بالکل ختم ہوگئی ، اب وہ دونوں بہت پریشان ہوئے صبح جب خُدّام حاضرِخدمت ہوئے ، تو دیکھا کہ بادشاہ اور اس کی نئی مَلکہ دونوں ہی گونگے ، بَہۡرے گونگے اندھے ہو چکے ہیں اور ان کے ہاتھ بھی بالکل بےکار ہو چکے ہیں۔ جب یہ خبر اس دور کے نبی علیہ السّلام کو پہنچی تو انہوں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ان دونوں کے بارے میں عرض کی تو بارگاهِ خداوندی سے ارشاد ہوا: "میں ہرگز ان دونوں کو معاف نہیں کروں گا ، کیا انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ جو حرکت انہوں نے لَکَڑۡہارے کے ساتھ کی میں اس سے بےخبر ہوں ۔“
(عُیُونُ الحکایات(مترجم)
حصہ اول صفحہ 191 تا 192
مؤلف:امام عبد الرحمٰن بن علی الجوزی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ
اَلۡمُتَوَفّٰی 597)
اَللّٰه(عَزَّ وَجَلَّ)
پیارےمحبوبﷺو
انبیاۓِکرام(علیھم السّلام)و
صحابہ کرام(علیھم الرضوان)و اولیاۓِعظام(رحمہم اللّٰه)کےصدقےمیں
میری اورجملہ مومنین ومومنات کی مغفرت فرمائے(آمین)
جملہ مؤمنین و مؤمنات کے لئے دعائےِ مغفرت کی اِلۡتِجا ہے
ہمارا ہدف آپ (آپ کے ذریعے لوگوں) تک دینی، تاریخی، معلوماتی، تحریریں پیش کرنا ہے جس میں آپ اس کو دوسروں تک پہنچاکر بھلائی کا کردار ادا کر سکتے ہیں اسمیں آپ کا تھوڑاسا وقت صَرف ہوگا لیکن ہو سکتا ہے آپ کی شیئرکردہ تحریر ایک یا بہت سے لوگوں کیلئے سبق آموز ثابت ہو
0 Comments