حضورصلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم
کا علمِ غیب
(1)حضرت سُراقہ بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے بارے میں غیبی خبر
(2)حضرت قباث بن اشیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے دل کی بات جان لی
(3)حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے بارے میں غیبی خبر
اللہ کے حبیب صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم اپنے یارِغار کے ساتھ مکہ(1) سے مدینہ کی طرف جا رہے ہیں ، کفار و مشرکین تلاش میں ہیں لیکن کوئی شخص رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم تک نہ پہنچ پایا سوائے سُراقہ بن مالک بن جعشم کے۔
اس وقت کا منظر بیان کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
((اتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ – قَالَ – وَنَحْنُ فِى جَلَدٍ مِنَ الأَرْضِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُتِينَا فَقَالَ « لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ». فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ –صَلَّى اللّٰهُ عَلَيۡهِ وسلم- فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا فَقَالَ إِنِّى قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَىَّ فَادْعُوَا لِى فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ. فَدَعَا اللّٰهَ فَنَجَى))
یعنی:سُراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سخت زمین پہ تھے۔ میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم ہم تک رسائی ہو چکی ہے۔ رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا: گھبراؤ مت ، اللہ تعالٰی ہمارے ساتھ ہے۔ پھر حضورِاقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے سُراقہ کے خلاف دعا کی تو ان کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ سُراقہ نے کہا:میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے ، تم میرے لیے دعا کرو ، میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ کو تلاش کرنے والوں کو مَیں آپ سے پھیر دوں گا۔ رسولُ اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے دعا فرمائی تو سراقہ کو نجات مل گئی[١]۔
رسولُ اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نگاہ سُراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بالوں سے بھری کلائیوں پر پڑی تو سَیِِّدِعالَم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
((كيف بك إذا لبست سواري كسرٰى))
"تم کیسے لگو گے جب تم کسرٰی کے کنگن پہنو گے"۔
اور پھر حضورِ اقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرمان کے عین مطابق ہوا۔ رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وصال ہو چکا تھا ، بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بھی وصال ہو چکا تھا اور عمرِفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دورِخلافت تھا ، جب قصرِکسرٰی کو فتح کیا گیا ، کسرٰی کا تاج اور کنگن حضرت عمرِفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دربار میں لائے گئے تو آپ نے حضرت سراقہ بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو بُلا کر وہ کنگن انہیں پہنائے اور فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو بلند کرو ، پھر حضرت عمرِفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بلند آواز سے کہا:
((الله أكبر ، الحمد لله الذي سَلَبَهُما كسرى بن هرمز الذي كان يقول : أَنا رَبُّ الناس ، وألبسهما سراقةَ بن مالك بن جُعْشُم، أعرابي من بني مُدْلِج))
اللہ سب سے بڑا ہے ، تمام خوبیاں اللہ کریم کے لیے ،جس نے یہ کنگن کسرٰی بن ھرمز جو اپنے آپ کو لوگوں کا رب کہتا تھا ، اس سے چھین کر سراقہ بن مالک(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)بنی مدلج کے دیہاتی کو پہنا دئیے۔[٢]
(١)صحیح بخاری،
صحیح مسلم
(۲)جامع الاصول فی احادیث الرسول ج۱۲ص۴۳۵جامعۃ العین للعلوم الاسلامیۃ سکھر ، سندھ
(2)حضورحضرت قُباث بن اشیم رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے دل کی بات جان لی:
حضرت قُباث بن اشیم رضی اللّٰه تعالٰی عنه فرماتےہیں کہ بدر کے روز مَیں مشرکین کے لشکر میں تھا اور میری نگاہ میں رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صحابہ کی قِلّت اور اپنے ساتھ گھوڑوں اور افراد کی کثرت کو دیکھ رہا تھا۔ پھر شکست خوردہ لوگوں میں مجھے بھی شکست ہوئی اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ہر طرف مشرکیں ہی ہیں۔ مَیں نے اپنے دل میں سوچا:
((مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا الْأَمْرِ فَرَّ مِنْهُ إِلَّا النِِّسَاءُ))
"ایسا معاملہ میں نے کبھی نہیں دیکھا ،ان (تھوڑے سے لوگوں کے سامنے) سے تو عورتیں ہی بھاگیں"۔
وقت گزرا اور غزوۂ خندق تک حضرت قباث بن اشیم رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے دل میں اسلام کی حقّانیت رفتہ رفتہ جگہ بنا چکی تھی ، آپ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا تو میں نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کہ محمد صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ مَیں تلاش کرتا ہوا رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محفل تک پہنچا مگر مَیں رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو صحابہ کے بیچ سے پہچانتا نہ تھا ، مَیں نے سلام کیا تو رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
((يَا قُبَاثُ بْنَ أَشْيَمَ أَنْتَ الْقَائِلُ يَوْمَ بَدْرٍ ومَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا الْأَمْرِ فَرَّ مِنْهُ إِلَّا النِِّسَاءُ؟))
"اے قُباث بن اشیم ،تمہی وہ ہو جس نے بَدۡر کے روز کہا کہ میں نے ایسا معاملہ نہ دیکھا ، ان سے تو عورتیں ہی بھاگیں"؟
حضرت قُباث نے یہ بات صرف دل میں سوچی تھی ، لیکن آج جب زبانِ رسالت سے سنی تو بےساختہ بول اٹھے:
((أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّٰه وَإِنَّ هَذَا الْأَمْرَ مَا خَرَجَ مِنِِّي إِلَى أَحَدٍ قَطُّ وَمَا تَدَمْدَمْتُ بِهِ إِلَّا شَيْئًا حَدَّثْتُ بِهِ نَفْسِي فَلَوْلَا أَنَّكَ نَبِيُّ مَا أَطْلَعَكَ اللّٰه عَلَيْهِ، هَلُمَّ حَتّٰى أُبَايِعَكَ))
میں گواہی دیتا ہوں کہ بےشک آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں ، یہ بات مجھ سے کسی دوسرے تک بالکل نہ پہنچی ، اور نہ مَیں نے منہ سے بولی ، بس دل میں ہی سوچا تھا ، اگر آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی نہ ہوتے تو اللہ عزوجل آپ کو اس کی اطلاع نہ دیتا، لائیے اپنا ہاتھ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی ج۳ص۱۵۰)
(3)حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں غیبی خبر:
ابن عساکر حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
حالتِ کفر میں، اسلام قبول کرنے سے پہلے ، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے صخر نامی ایک انصاری کو شہید کیا تھا۔ یہ اطلاع حضورِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو سنائی گئی۔ حضورِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم یہ سن کر ہنس پڑے۔ انصار کو بڑی حیرت ہوئی۔ عرض کی یارسولُ اللہ ! صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم حضورِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی قوم کے ایک آدمی نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم ہنس رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس چیز کیلئے نہیں ہنسا لیکن میرے ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ
((لكِنّهٗ قَتَلَهُ وَهُوَ مَعَهُ فِي دَرَجَةٍ اَي فِي الْجَنَّةِ))
"اس شخص نے اس کو قتل کیا ہے جس کا درجہ جنّت میں اس شہید کےبرابر ہوگا۔"
پھر دنیا نے دیکھا کہ عکرمہ نے اسلام قبول کیا اور خلعت شہادت سے سر فراز کیا گیا۔ اس طرح دونوں اسلام کے شہید اور دونوں کا جنت میں درجہ یکساں۔
نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو یہ ساری باتیں معلوم تھیں کہ ایسا ہوگا۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے اس پر تعجّب کا اظہار کیا کہ ایک جَنّتی دوسرے جَنّتی کو قتل کر رہا ہے۔
(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ 877)
0 Comments