Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کا علمِ غیب

 حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم

کا علمِ غیب


(1)حضرت حارث رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

والد ام المومنین جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا


(2)حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ


(3)حضرت شیبہ بن عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما

(1)

ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جب نبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے بنی مصطلق قبیلہ پر حملہ کیا تو اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو شاندار فتح عطا فرمائی۔

غزوہ بنی مصطلق میں مسلمانوں کو دیگر اموال غنیمت کے علاوہ بہت سے مرد و زن (اسیرانِ جنگ) بھی ملے۔ انہیں لے کر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم واپس مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ ان جنگی قیدیوں میں اس قبیلہ کے سردار حارث کی بیٹی، جن کا نام جویرہ تھا وہ بھی قیدی بن کر آئیں۔

ان کا باپ حارث بہت سے اونٹ لے کر مدینہ طیبہ کیلئے روانہ ہوا تاکہ یہ اونٹ اپنی بیٹی کے فدیہ کے طور پر ادا کرے اور اس کو واپس گھر لے آئے۔

جب وہ اپنے اونٹوں سمیت وادی عقیق پہنچا تو اس وقت اس نے مُڑ کر اونٹوں کی قطار پر نظر ڈالی۔ دو اونٹ جو بڑی اعلٰی نسل کے تھے اسے وہ بہت پسند آئے۔ چنانچہ اس نے انہیں اس قطار سے نکال کر وہاں کی اس گھاٹی میں چھوڑ دیا، اس نیت سے کہ واپس آؤں گا تو انہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔

مدینہ طیبہ پہنچ کر اس نے بارگاہِ رسالت صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم میں حاضری دی اور عرض کرنے لگا آپ میری بیٹی کو جنگی اسیر بنا کر لے آئے ہیں، یہ اس کا فدیہ ہے اسے قبول فرمائیں اور اسے آزاد کر کے میرے ساتھ روانہ فرمائیں۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ان اونٹوں کی طرف دیکھا، فرمایا وہ دو اونٹ کہاں ہیں جن کو تم وادی عقیق کی ایک گھاٹی میں چھوڑ کر آئے ہو۔ حارث یہ سن کر حیران ہو گیا اور کہہ اٹھا

((اَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّٰهِ))

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ان دو اونٹوں کے بارے میں میرے علاوہ اور کسی کو علم نہ تھا۔ “ اللہ تعالٰی نے آپ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا یقیناً آپ اللہ تعالٰی کے رسول ہیں۔

(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ 883 تا 884)


(2)حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ:


حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ ہجرت سے پہلے ایک روز مکہ مکرمہ میں رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے میری ملاقات ہوئی حضورِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم 

نے مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی میں نے کہا بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ مجھ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ میں آپ کا تابعدار بن جاؤں حالانکہ آپ نے اپنی قوم کے دین کی مخالفت کی اور ایک نئے دین کو لے کر آئے ہو اس لئے میں کسی قیمت پر آپ کا دین قبول نہیں کروں گا۔

حضرت عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیّت میں ہم دو دن سوموار اور جمعرات کو کعبہ شریف کا دروازہ کھولا کرتے تھے ایک دن نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم تشریف لائے اور ارادہ کیا کہ لوگوں کے ساتھ کعبہ کے اندر تشریف لے جائیں۔ مجھے بڑا غصہ آیا میں نے بڑے غصے سے چند سخت باتیں آپ کے ساتھ کیں اور کچھ گستاخیوں کا ارتکاب کیا لیکن حضورِاقدس صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے بڑے صبر و بردباری کے ساتھ میرے اس ہرزہ سرائی کو سنا۔ پھر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے مجھے فرمایا۔

((لَعَلَّكَ سَتَرٰى هٰذَا المِفْتَاحَ يَوْمًا بِيَدِى أَضَعۡ حَيْثُ شِئْتُ))

 ”اے عثمان! عنقریب تو دیکھے گا یہ چابی میرے ہاتھ میں ہو گی جس کو چاہوں گا عطا فرماؤں گا۔“

مَیں سراپا حیرت بن کر بولا ۔ ((لَقَدْ هَلَكَتْ قُريۡشٌ يَوْمَئِذٍ وَذَلَّتْ))

جس انقلاب کی آپ بات کر رہے ہیں کیا اس دن قریش خاک میں مل جائیں گے اور انکے جاہ و جلال کا آفتاب غروب ہو چکا ہو گا؟ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا نہیں جس دن چابی میرے ہاتھ میں ہوگی وہ قریش کی خوشحالی اور عزت و سرفرازی کا دن ہوگا۔ اتنی بات ہوئی، حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کعبہ کے اندر چلے گئے لیکن حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی یہ باتیں میرے دل میں پیوست ہو کر رہ گئیں۔ میں نے یہ خیال کیا کہ جو کچھ ان کی زبان سے نکلا ایسے ضرور ہو کر رہے گا چنانچہ میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر لیا لیکن جب میری قوم کو میرے ارادہ کا علم ہوا تو انہوں نے طعن و تشنیع کے تیروں کی مجھ پر بھر مار کر دی۔ مجھے سب و شتم کی۔ مجھے دھمکیاں دیں چنانچہ مجھے اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔

جس روز مکہ فتح ہوا حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے مجھے یاد فرمایا حاضر ہوا مجھے حکم دیا جاؤ چابی لے آؤ۔ گھر گیا کعبہ شریف کی چابی لے آیا اور بڑے ادب و احترام سے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں پیش کر دی۔ چابی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے لے لی پھر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے وہ چابی مجھے عطا فرمائی اور ساتھ فرمایا۔

((خُذْهَا خَالِدَةً تَالِدَةً لَا يَنْزَعُهَا مِنْكَ إِلَّا ظَالِمُ))

یہ چابی لے لو اور مَیں تمہیں یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دے رہا ہوں کوئی شخص تم سے یہ چابی نہیں لے گا جو لے گا وہ ظالم ہو گا۔“جب مَیں چابی لے کر واپس لوٹا تو حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے پھر مجھے آواز دی اور مَیں لوٹ کر واپس آیا۔حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا ہجرت سے پہلے جو بات مَیں نے تمہیں کہی تھی وہ پوری ہو گئی یا نہیں۔ مَیں نے تمہیں کہا تھا تو دیکھے گا ایک روز یہ چابی میرے پاس ہوگی اور جس کو چاہوں گا عطا کروں گا۔

عثمان کو اب یا رائے ضبط نہ رہا بلند آواز سے کہنے لگا اَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللّٰهِ میں گواہی دیتا ہوں بیشک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔

(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ 877 تا 879)


(3)حضرت شیبہ بن عثمان بن طلحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ:


ابن سعد، ابن عساکر اور دیگر محدثین نے اپنی کتب حدیث میں عبد الملک بن عبید سے روایت کیا ہے : شبیہ بن عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنے ایمان لانے کا واقعہ خود بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا جس سال مکہ مکرمہ فتح ہوا اور رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، مَیں نے دل میں طَے کیا کہ جب قریش ہوازن کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے حنین جائیں گے اور وہ آپس میں گڈمڈ ہو جائیں گے تو مَیں اچانک دھوکا سے محمدٌ رَّسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم پر حملہ کروں گا اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی شمعِ حیات کو بُجھا کر قریش کے تمام مقتولوں کا انتقام لینے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ مَیں اپنے دل میں کہا کرتا کہ اگر سارا عرب اور سارا عَجَم اسلام قبول کر لے تب بھی مَیں اسلام کو قبول نہیں کروں گا۔ مَیں اب اس موقع کا انتظار کرنے لگا کہ مجھے موقع ملے تو مَیں اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہناؤں۔ ہر لحظہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی عداوت اور اسلام سے مخالفت کا جذبہ قوی سے قوی تر ہوتا جا رہا تھا۔ جب سب لوگ آپس میں گڈمڈ ہو گئے اور رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم اپنے خَچّر سے نیچے اُترے تو مَیں نے اپنی تلوار کو نِیام سے نکالا اور آہستہ آہستہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ جب مَیں قریب پہنچ گیا تو مَیں نے تلوار بلند کی۔ مَیں وار کرنے والا تھا کہ اچانک آگ کا ایک شُعلہ میرے سامنے آگیا اور وہ بِجلی کی طرح چَمَک رہا تھا۔ قریب تھا کہ میری بینائی کو سلۡب کر لے۔ مَیں نے اپنی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ لیا کہ کہیں یہ تیز روشنی میری آنکھوں کی بینائی کو سلب نہ کرلے۔ اسی اثناء میں رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے میری طرف توجہ فرمائی اور مجھے بلند آواز سے فرمایا "یَا شَيْبَةُ اُدۡنُ مِنِِّی" اے شیبہ ! میرے نزدیک آجاؤ۔ میں قریب ہوا، نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے اپنا پاکیزہ بابرکت ہاتھ میرے سینہ پر رکھ دیا اور ساتھ ہی اللہ کی جناب میں عرض کی اے اللہ ! شیطان کی فریب کاریوں سے اسے پناہ دے۔ شَیۡبَہ کہتے ہیں اسی لمحہ میرے دل میں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی محبت کے سیلاب اُمڈ کر آگئے۔ وہ مجھے اپنی ذات سے اپنے کانوں سے اپنی آنکھ سے زیادہ عزیز لگنے لگے اور میرے دل میں کفر اور بغض کی جو آلائشیں تھیں وہ سب دور ہو گئیں۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے پھر فرمایا اُدۡنُ اے شَیۡبہ اور نزدیک ہو۔ اب دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ کر۔ مَیں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے آگے آگے چلنے لگا۔ میری تلوار دشمن پر بجلی کی طرح گرنے لگی اور ان کو خاک و خون میں ملانے لگی۔

میری یہ کیفیت تھی کہ اگر اس وقت میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو مَیں اس کا سر قلم کر دیتا۔ پھر دشمن کے شکست کھانے کے بعد حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم اپنے لشکر میں تشریف لے گئے اور اپنے خیمے کے اندر چلے گئے۔ مَیں بھی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے پیچھے پیچھے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے خیمہ میں چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا۔

((يَا شَيْبُ الَّذِي أَرَادَ اللّٰهُ بِكَ خَيْرٌ مِمَّا أَرَدْتَّ بِنَفْسِكَ))

اے شَیۡبہ ! اللہ تعالٰی نے تیرے بارے میں جو ارادہ فرمایا وہ ہزار درجہ اس ارادہ سے بہتر ہے جو تو نے اپنے بارے میں کیا تھا۔“

پھر مَیں نے جو منصوبے بنائے تھے اور جو تجویزیں کی تھیں تفصیل کے ساتھ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے مجھے بيان فرمادیں، جن کا ذکر مَیں نے کسی سے بھی نہیں کیا تھا۔ پھر مَیں نے عرض کی

((اِنِِّی أَشْهَدُ أَنۡ لَّآاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللّٰهِ))

پھر مَیں نے عرض کی

((اِسْتَغْفِرۡ لِي يَا رَسُولَ اللّٰهِ))

اے اللہ تعالٰی کے پیارے حبیب اللہ تعالٰی کی جناب میں میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا

((غَفَرَ اللّٰهُ لَکَ))

اللہ عَزّوَجَلَّ نے تیرے سارے گناہ معاف فرمادیئے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی تو حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا

((يَا عَبَّاسُ نَاوِلۡنِي مِنَ الْحَصَبَاءِ))

مجھے کچھ کنکریاں اٹھا کر دو۔حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے اس ارشاد کو اس خَچَّر نے سمجھ لیا اور فوراً جُھک گیا یہاں تک کہ اس کا پیٹ زمین کو مَس کرنے لگا۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے خود کنکریوں کی مُٹّھی بھری اور دشمنوں کے لشکر کی طرف پھینکی اور فرمایا:

((شَاهَتِ الۡوُجُوۡهُ حٰمٓ لَا یُنۡصَرُوۡنَ))

ہر کافر کی آنکھوں میں وہ کنکریاں پڑیں ، ان پر خوف وہَراس طاری ہو گیا اور انہوں نے راہِ فرار اختیار کی۔

ان دونوں (حضرت عثمان اور حضرت شیبہ) نے سچّے دل سے اسلام قبول کر لیا اور باقی ساری زندگی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کیلئے وقف کر دی۔

(ضیاء النبی جلد 5 صفحہ879 تا 880)

Post a Comment

0 Comments