Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

 (1)تباہ ہوجائیں ابولہَب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا۔اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔اب دھنستا ہے لپٹ مارتی آگ میں وہ۔اور اس کی جورو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے۔ اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسا ۔


  (2)ابُو لَہَب کا نام عبدالعُزّٰی ہے یہ عبدالمطّلب بن ہاشم کا بیٹا اور سیِِّدِعالَم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا بہت ہی گُورا خوبصورت آدمی تھا اسی لئے اس کی کنیت ابولَہَب ہے اور اسی کنیت سے وہ مشہور تھا


(3)ابُولہَب کی بیوی اُمِِّ جمیل تھی ، جو کہ حرب بن امیّہ کی بیٹی اور حضرت ابوسفیان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بہن تھی


(4)دشمنی کی وجہ اور ابتدا


(5)ابولہَب اور اس کی بیوی ام جمیل کا رد عمل


(6)ابولہَب کا عبرتناک انجام غزوہ بدر کے سات دن کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے بیماری میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیا


(7)اُمِِّ جمیل کا عبرتناک انجام

(1)

قرآنِ مجید


تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ()مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ()سَیَصْلٰى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ()وَّ امْرَاَتُهٗ-حَمَّالَةَ الْحَطَبِ()فِیْ جِیْدِهَا حَبْلٌ مِِّنْ مَسَدٍ()


ترجمۂِ کنز الایمان


تباہ ہوجائیں ابولہَب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا۔اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔اب دھنستا ہے لپٹ مارتی آگ میں وہ۔اور اس کی جُورو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے۔ اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسا ۔

(پارہ:30 سورہ لہب مکمل 

آیت: 1 تا 5)

  (2)

ابُولہَب اور اس کی بیوی اُمِِّ جمیل کا تعارف:


ابولہَب کا نام عبدالعُزّٰی ہے یہ حضرت عبدالمطلب بن حضرت ہاشم کا بیٹا اور سیِِّدِعالَم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا بہت ہی گُورا خوبصورت آدمی تھا اسی لئے اس کی کنیت ابولَہَب ہے اور اسی کنیت سے وہ مشہور تھا۔

(تفسیر خازن، سورہ لہب کے تحت ، ج 4، ص 494 ، دارالكتب العلميه، بيروت)

(3)

ابولہَب کی بیوی اُمِِّ جمیل تھی ، جو کہ حرب بن امیّہ کی بیٹی اور حضرت ابوسفیان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بہن تھی ، جس کو قرآن نے 

((وَّ امْرَاَتُهٗ-حَمَّالَةَ الْحَطَبِ))

"اور اس کی جورو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھانے والی" فرمایا۔ (تفسیر بغوی، سورہ لہب کے تحت، ج 5، ص 328، دار احياء التراث العربي، بيروت)

(4)

دشمنی کی وجہ اور ابتدا:


تفسیرِخازن میں اس کا شانِ نُزول لکھا ہے: حضرت سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں : جب یہ آیتِ پاک 

وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ()

اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔

(سورۃ الشُّعراء آیت:214)

نازل ہوئی ، تو نبیِ کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کی مختلف شاخوں کو پکارا: یا بنی فہر ! یا بنی عدی وغیرہ وغیرہ ، یہاں تک کہ وہ لوگ جمع ہو گئے ، جو نہ آسکتا تھا اس نے اپنا قاصد بھیج دیا کہ دیکھے کیا ہوا ہے ، ابولہب اور دیگر قریش آئے ، تو نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا: اگر میں تمہیں کہوں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ سب بولے: جی ہاں، ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی دیکھا ہے ۔ تو نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے (اسلام و توحید کی دعوت دیتے ہوئے) فرمایا: میں تمہیں عذاب شدید سے ڈراتا ہوں۔ اس پر ابولہب بولا تم تباہ ہو جاؤ (معاذاللہ) ، کیا ہمیں اس لیے جمع کیا ہے؟ تو اس پر یہ نازل ہوئی

تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ()


 ترجمۂِ کنز الایمان


تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا۔

یعنی اللہ تعالٰی نے محبوب کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی طرف سے جواب دیا۔

(تفسیر خازن، سورہ لہب کے تحت، ج 4، ص 494 ، دارالكتب العلميه، بيروت)

(5)

ابولہَب اور اس کی بیوی اُمِِّ جمیل کا رد عمل:


مروی ہے کہ ابولہَب نے جب پہلی آیت سنی تو کہنے لگا کہ جو کچھ میرے بھتیجے کہتے ہیں اگر سچ ہے تو میں اپنی جان کے لئے اپنے مال و اولاد کو فدیہ کردوں گا ، اس پر یہ آیت 


مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ


 ترجمۂِ کنز الایمان


"اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا"۔

نازل ہوئی ، اس آیت میں اس کا رد فرمایا گیا کہ یہ خیال غلط ہے اس وقت کوئی چیز کام آنے والی نہیں ۔

(تفسیر بغوی، سورہ لہب کے تحت ، ج 5، ص 327، دار احياءالتراث العربی، بیروت،

تفسیر خزائن العرفان تحت سوره لهب) حضرت ربیعہ بن عباد دیلی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ذو المجاز کے بازار میں دیکھا کہ لوگ نبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے گرد جمع ہیں اور آپ ان سے فرمارہے ہیں:((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ تُفْلِحُوا))

ترجمہ: اے لوگو ! لَآ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ کہو فلاح پا جاؤ گے۔ جبکہ آپ کے پیچھے ایک صاف چہرے اور بھیگی آنکھوں والا شخص کھڑا تھا جس کے سر پر دو چوٹیاں تھیں اور وہ لوگوں سے کہہ رہا تھا : (معاذاللہ) یہ بےدین جھوٹا ہے۔ آپ جہاں جاتے یہ بھی پیچھے پیچھے جاتا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کا چچا ابولہَب ہے۔

(مسند احمد بن حنبل، حديث ربيعة بن عباد الديلي ، ج 31 ، ص 342 ، مؤسسة الرساله، بيروت)

تفسیر کبیر میں ہے: حضرت اسماء رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب سورہ لہَب نازل ہوئی تو اُمّ جمیل انتہائی غصے میں پَتھر اُٹھائے ہوئے آئی ، مسجد میں داخل ہوئی ، رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم مسجد میں تشریف فرما تھے ، اور ان کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی موجود تھے، اُمِِّ جمیل یہ کہہ رہی تھی :

((مُذَمَّمًا قَلَيْنَاوَدِينَهُ أَبَيْنَا وَحُكْمَهُ عَصَيْنَا))

یعنی: "ہمیں قابل مذمت (نَعُوذُ بِاللّٰہ) شخص سے نفرت ہے، اس کے لائے ہوئے دین کو ہم نہیں مانتے اور اس کے احکام کی ہم مخالفت کرتے ہیں"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا : وہ آپ کی طرف آ رہی ہے ، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو دیکھ لے گی، تو نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: وہ مجھے نہیں دیکھ سکے گی ، اور یہ آیت تلاوت فرمائی :

وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا()


 ترجمۂِ کنز الایمان


اور اے محبوب تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا۔

(پارہ:15 سورۂ بنی اسرائیل، آیت:45)

وہ قریب آکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے کہنے لگی : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے صاحب نے میری ہِجُو کی ہے ، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: رب کعبہ کی قسم انہوں نے تمہاری ہِجو نہیں کی۔ وہ یہ کہتے ہوئے واپس ہوئی قریش جانتا ہے کہ میں اس کے سردار کی بیٹی ہوں ۔

(تفسیر کبیر، سورہ لہب کے تحت ، ج 32 ، ص 354 ، دار احياء التراث العربي، بيروت)

تفسیر روح البیان میں ہے: جب سورۂ تَبّتۡ یَدَا اَبِی لَہَب کی خبر اُمِِّ جمیل تک پہنچی تو وہ اپنے بھائی ابوسفیان کے پاس اس کے گھر میں آئی ، غصے سے بھری ہوئی تھی ، بھائی کو کہنے لگی کہ اے بہادر ! تمہیں یہ بات غضبناک نہیں کرتی کہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے میری ہِجو کی ہے ؟ ابوسفیان نے کہا ٹھہرو میں اس کی خبر لیتا ہوں پھر تلوار لے کر باہر نکلا ، فوراً ہی واپس لوٹ آیا، اُمِِّ جمیل نے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کر دیا ؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ میری بہن ! کیا تمہیں یہ پسند آئے گا کہ تمہارے بھائی کا سر اژدھے کے منہ میں چلا جائے ، اُمِِّ جمیل نے جواب دیا نہیں ، تو ابوسفیان کہنے لگا کہ بخدا قریب تھا کہ اس وقت میرا سر اژدھے کے منہ میں ہوتا یعنی اگر وہ نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے قریب جاتا تو اژدہا اسے اپنا لقمہ بنا لیتا۔ پھر بعد میں ابوسفیان اسلام لے آئے اور ام جمیل کا کفر پر خاتمہ ہوا اور یہ تمام اللہ تعالٰی کے حکم سابق سے ہے۔

(تفسیر روح البيان، سورہ لہب کے تحت ، ج 10، ص 532 ، دار الفکر، بیروت)

(6)

ابولہَب کا عبرتناک انجام:


غزوہ بدر کے سات دن کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے ابولہب کو عدسہ بیماری میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیا ، (عدسہ طاعون کی قسم کی ایک زہریلی پھنسی ہے جو پہلے چھوٹی سے نکلتی ہے، پھر اس کا زہر سارے جسم میں پھیل جاتا ہے اور آدمی مر جاتا ہے)، جب اس گندی بیماری میں مبتلا ہو کر مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اسے دو یا تین دن پڑے رہنے دیا اور دفن نہ کیا کیونکہ قریش عدسہ بیماری سے بہت زیادہ ڈرتے تھے وہ اسے طاعون کی طرح متعدی سمجھتے تھے، بالآخر قریش کے ایک آدمی نے اس کے بیٹوں کو کہا کہ تمہارا بیڑا غرق ہو، کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہارا باپ گھر میں پڑا سڑ رہا ہے اور تم اسے دفن نہیں کرتے ، وہ کہنے لگے کہ ہمیں اس کی بیماری کے زخموں سے ڈر لگتا ہے (کہ کہیں اس کی وجہ سے ہمیں یہ بیماری نہ لگ جائے ) ، اس نے کہا چلو میں تمہاری مدد کرتا ہوں ، پھر ان لوگوں نے غسل کے نام پر دور ہی سے پانی پھینک دیا اور کوئی بھی قریب نہ گیا ، اس کے بعد اُٹھا کر وادی مکہ کے بالائی حصے پر لے گئے ، جہاں ایک دیوار کے سہارے کھڑا کر دیا اور اس پر پتھر پھینکتے رہے ، یہاں تک کہ وہ ان پتھروں کے نیچے دفن ہو گیا۔ یہی معنی ہیں اس آیت کریمہ کے کہ رب فرماتا ہے:


 مَا اَغْنٰی عَنْهُ مَالُهُ وَ مَا كَسَبَ


 ترجمہ کنز الایمان


اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔

(تفسیر کبیر، سورہ لہب کے تحت ، ج 32 ، ص 352,353، دار احياء التراث العربي ، بيروت ل دلائل النبوة للبيهقي ، باب وقوع الخبر بمكة وقدوم عمير بن وہب، ج 3 ، ص 146 ، دار الكتب العلميه بيروت)

(7)

اُمِِّ جمیل کا عبرتناک انجام:


اُمِِّ جميل بنت حرب رسولِ اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے نہایت عناد وعداوت رکھتی تھی (اور باوجود یہ کہ بہت دولتمند اور بڑے گھرانے کی تھی لیکن حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی عداوت میں انتہا کو پہنچی تھی کہ) خود اپنے سر پر کانٹوں کا گٹھا لا کر رسول کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے راستہ میں ڈالتی تاکہ حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کو اور حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے اصحاب کو ایذا و تکلیف ہو اور حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی ایذا رسانی اس کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کام میں کسی دوسرے سے مدد لینا بھی گوارا نہ کرتی تھی کہ ایک روز یہ بوجھ اٹھا کر لا رہی تھی کہ تھک کر آرام لینے کے لئے ایک پتھر پر بیٹھ گئی ، ایک فرشتے نے بحکمِ اِلٰہی اس کے پیچھے سے اس گٹھے کو کھینچا وہ گرا اور رسی سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور وہ مرگئی ۔

(تفسیر خازن سورہ لہب کے تحت ، ج 4، ص 495 ، دار الكتب العلميه، بيروت

Post a Comment

0 Comments