Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

 قرآنِ مجید


قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِِّ الْفَلَقِ()مِنْ شَرِِّ مَا خَلَقَ()وَ مِنْ شَرِِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ()وَ مِنْ شَرِِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ()وَ مِنْ شَرِِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ()


 ترجمۂِ کنز الایمان


تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے۔اس کی سب مخلوق کے شر سے۔اور اندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے۔اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں ۔اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔

(پارہ:30 سورۃ الفلق مکمل 

(آیت: 1 تا5)

 تفسیر صراط الجنان


[قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِِّ الْفَلَقِ: تم فرماؤ: میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔]

پناہ مانگنےمیں اللّٰہ تعالٰی کا اس وصف’’ صبح کے رب‘‘ کے ساتھ ذکر اس لئے ہے کہ اللّٰہ تعالٰی صبح پیدا کرکے رات کی تاریکی دور فرماتا ہے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ پناہ چاہنے والے سے وہ حالات دور فرما دے جن سے اسے خوف ہو، نیز جس طرح تاریک رات میں آدمی صبح طلوع ہونے کا انتظار کرتا ہے اسی طرح خوف زدہ آدمی امن اور راحت کا منتظر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ صبح مجبور ولاچار لوگوں کی دعاؤں کا اور ان کے قبول ہونے کا وقت ہے تواس آیت سے مراد یہ ہوئی کہ جس وقت کَرۡب اور غم والوں کو آسانیاں دی جاتی ہیں اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں،میں اُس وقت کو پیدا کرنے والے کی پناہ چاہتا ہوں ۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ’’ فَلق‘‘ جہنم میں ایک وادی ہے۔

(تفسيرِخازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۹-۴۳۰)


[مِنْ شَرِِّ مَا خَلَقَ: اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔]

اس آیت میں ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے ،خواہ جاندار ہو یا بے جان، مُکَلّف ہو یا غیر مُکَلّف اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مخلوق سے مراد خاص ابلیس ہے جس سے بدتر مخلوق میں کوئی نہیں۔

(تفسيرِ خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۴۳۰)


[وَ مِنْ شَرِِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ: اورسخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھاجائے۔]

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰه تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے چاند کی طرف نظر کرکے ان سے فرمایا ، اے عائشہ! رضی اللّٰه تعالٰی عنہا،اس کے شر سے اللّٰہ تعالٰی کی پناہ، یہ جب ڈوب جائے تواندھیراہو جاتاہے ۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المعوّذتین، ۵ / ۲۴۰، الحدیث: ۳۳۷۷)اس سے مراد مہینے کی آخری راتیں ہیں جب چاند چھپ جاتا ہے تو جادو کے وہ عمل جو بیمار کرنے کے لئے ہیں اسی وقت میں کئے جاتے ہیں ۔

(تفسیرِ خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۴۳۰۔)


[وَ مِنْ شَرِِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ: اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔]

یعنی جادوگر عورتوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو ڈوروں میں گرہ لگا لگا کر ان میں جادو کے منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہیں ، جیسا کہ لبید کی لڑکیوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم پر جادو کرنے کیلئے کیا تھا۔

(تفسیرِ بغوی، الفلق، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۵۱۷)


تعویذات سے متعلق ایک اہم شرعی مسئلہ:


یاد رہے کہ ناجائز کاموں کیلئے تعویذ گنڈے ناجائز و حرام ہیں جبکہ جائز مقصد کیلئے گنڈے بنانا اور ان پر گرہ لگانا،قرآن مجید کی آیات یا اللّٰہ تعالٰی کے اَسماء پڑھ کر دم کرنا، جائز ہے ۔جمہور صحابہ ٔکرام اور تابعین رضی اللّٰه تعالٰی عنهُمْ اسی پر ہیں۔(تفسيرِ خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۹ملتقطاً) اور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے عملِ مبارک اور ارشاد سے بھی یہ چیز ثابت ہے ،

چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه تعالٰی عنہا سے روایت ہے ،آپ فرماتی ہیں کہ جب حضورِاقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے اہل میں سے کوئی بیمار ہوتا تو حضورِاَقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم مُعَوَّذات(یعنی سورہِ فَلق اور سورہِ ناس) پڑھ کر اس پر دم فرماتے۔

(مسلم، کتاب السلام، باب رقیۃ المریض بالمعوّذات والنّفث، ص۱۲۰۵)


اورحضرت عبید بن رفاعہ رضی اللّٰه تعالٰی عنه سے روایت ہے کہ حضرت اَسماء بنتِ عمیس رضی اللّٰه تعالٰی عنہا نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم ، حضرت جعفر رضی اللّٰه تعالٰی عنه کے بیٹوں کو بہت جلد نظر لگ جاتی ہے ،کیا میں کچھ پڑھ کے ان پر دم کر دیاکروں ؟ارشاد فرمایا’’ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جا سکتی تو نظر ضرور اس سے سبقت لے جاتی۔

(ترمذی، کتاب الطّب، باب ماجاء فی الرّقیۃ من العین، ۴ / ۱۳)


[وَ مِنْ شَرِِّحَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ: اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔]

حسد والا وہ ہے جو دوسرے کی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے ۔یہاں حاسد سے بطورِخاص یہودی مراد ہیں جو نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم سے حسد کرتے تھے یا خاص لبید بن اعصم یہودی ہے۔ (تفسیرِ خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۳۰) اور عمومی طور پر ہر حاسد سے پناہ کیلئے یہ آیتِ ِمبارکہ کافی ہے۔ حسد بدترین صفت ہے اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا اور زمین میں قابیل سے۔ حسد کے مقابلے میں رَشک ہوتا ہے اور وہ یہ ہے جس میں اپنے لئے بھی اسی نعمت کی تمنا ہوتی ہے جو دوسرے کے پاس ہے لیکن دوسرے سے چِھن جانے کی تمنا اس میں نہیں ہوتی۔اس سورتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جادو اور حسد بد ترین جرائم ہیں کہ عام شَروں کے بعد ان کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا۔

Post a Comment

0 Comments